Saturday 13 October 2018

ضمنی الیکشن کافیصلہ 25 جولائی کوہوچکاہے


ضمنی الیکشن کافیصلہ 25 جولائی کوہوچکاہے

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ضمنی انتخابات کے لئے آج اتوار 14 اکتوبر کو پولنگ زور شور سے جاری ہے۔ ملک بھر میں 35 حلقوں میں اُمیدوار اپنی قسمتیں آزمارہے ہیں۔ اس ضمن میں، الیکشن کمیشن نے پولنگ کے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔پولنگ 35 حلقوں میں ہوگی جن میں قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلی کے 26 حلقے شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے بقول ضمنی الیکشن کیلئے 95 لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔ اس انتخاب کے دوران 641 امیدوار مقابلہ کریں گے۔ ان حلقوں میں 92 لاکھ 83 ہزار 74 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، جس کے لئے 7 ہزار 489 پولنگ اسٹیشن بنائےگئے ہیں۔مختلف حلقوں کے1727 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 7364 سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے پاس کوڈ جاری کردئیے گئے ۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ووٹنگ پینل متعارف کرایا گیاتھا،جس پر رجسٹریشن کرانے کے اہل وہی افراد تھے جن کے پاس 'نائیکوپ' کارڈ ہو، ان کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ ہو اور وہ مذکورہ حلقے کے رجسٹرڈ ووٹر بھی ہوں۔
ان انتخابات میں 40 ہزار سے زائد پاک فوج کے جوانوں کو پولنگ اسٹیشنز میں تعینات کیا گیا ہے جب کہ ایک لاکھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔الیکشن کمیشن نے وزارت توانائی کو ہدایت بھی جاری کی ہے کہ پولنگ کے دوران متعلقہ حلقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کی جائے۔
اب ہم لے چلتے ہیں اگلے مرحلے کی طرف۔اگر ہم بات کرِیں قومی اسمبلی کے بڑے مقابلوں کی تو این اے  35  بنوں سے ایم ایم اے کے زاہد اکرم درانی سابق وزیر اعلی کے پی کے اکرم درانی کے بیٹے ہیں جو پی ٹی آئی کے نسیم علی شاہ کے مدمقابل ہیں۔ این اے56 اٹک سے پی ٹی آئی کے خرم علی خان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے ملک سہیل خان سے جاری ہے۔ یہ نشست میجر)ر(طاہر صادق کے چھوڑنے پر خالی ہوا تھا۔ این اے 60 راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے شیخ راشد شفیق جوکہ حالیہ وفاقی وزیربرائے ریلوے شیخ رشید کے بھتیجے ہیں۔ان کامقابلہ مسلم لیگ ن کے سجاد خان سے ہےآپ کو معلوم ہوگا اس حلقے میں الیکشن حنیف عباسی کوعمر قید کی سزا ہونے کے باعث منسوخ کیا گیا تھا۔ این اے 63 راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے منصورحیات خان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کےعقیل ملک سے ہے۔ این اے 69 گجرات سے مسلم لیگ ق کے مونس الہٰی جوکہ اسپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالہی کے صاحبزادے ہیں ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کےعمران ظفرسےہورہاہے۔۔ این اے124 لاہورسے مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی کا مقابلہ پی ٹی آئی کے غلام محی الدین سے ہوگا۔۔این اے 131 لاہورسے مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر خان سے ٹاکراجاری ہے۔یہ حلقہ وزیراعظم عمران خان کے چھوڑنے کے بعد خالی ہواتھا۔ کراچی کی صورتحال بھی دلچسپ ہے این اے 243 کراچی سے پی ٹی آئی کے عالمگیر خان کا مقابلہ ایم کیو ایم کے عامر چشتی سے ہے۔
اسی طرح دوسری طرف 26 صوبائی اسمبلیوں میں خیبر پختونخواہ کے بڑے مقابلے قارئین کو بتاتاچلوں کہ پی کے 78 پشاورسے کارنر میٹنگ میں جاں بحق ہونے والے ہارون بلور کی بیگم ثمرہارون بلور کا مقابلہ پی ٹی آئی کے محمد عرفان سے ہے۔ پی کے 97 ڈیرہ اسماعیل خان سے پیپلز پارٹی کے فرحان افضل ملک کا مقابلہ پی ٹی آئی کے فیصل امین گنڈا پورسے ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی عبیدالرحمان تحریک انصاف کے حق میں دسبردار ہوگئے ہیں۔ پی کے 99  ڈیرہ اسماعیل خان سے پی ٹی آئی کے آغاز اکرام اللہ جوکہ سردار اکرام اللہ گنڈا پور کے بیٹے ہیں۔موصوف کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے اکبر خان سے ہے۔ یاد رہے کہ سردار اکرام اللہ گنڈاپورالیکشن سے قبل 22 جولائی کو دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے۔۔جس کے باعث اس حلقے میں الیکشن منسوخ کیے گئے تھے۔


بلوچستان کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ پی بی 35 مستونگ سے آزاد امیدوار نواب اسلم رئیسانی کا مقابلہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار نور احمد بنگلزئی سے ہے۔ نواب مستونگ دھماکے میں جاں بحق سراج رئیسانی کے بھائی ہیں۔پی بی 40 خضدار سے آزاد امیدوارمیرشفیق الرحمان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے قدیر احمد سے ہے۔۔

پنجاب کی صورتحال بھی دھکی چھپی نہیں واضح رہے کہ پی پی 118 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پی ٹی آئی کے اسد زمان چیمہ کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے فوزیہ وڑائچ سے ہورہاہے۔۔پی پی 201 ساہیوال سے پی ٹی آئی کے سید صمصام کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے شفقت علی چیمہ سے۔۔پی پی 222 ملتان سے پی ٹی آئی کے سہیل احمد نون  کا مقابلہ  مسلم لیگ ن کے مہدی عباس خان سے۔پی پی 292 ڈی جی خان سےمسلم لیگ ن کے اویس لغاری کا مقابلہ پی ٹی آئی کے سردار مقصود خان لغاری سےہورہاہے۔

سندھ کو دھرتی ماں کہتے ہیں جہاں پی ایس 30 خیر پور سے پیپلز پارٹی کے احمد رضا جی ڈی اے کے محرم علی شاہ سے مدمقابل ہیں۔


واضح رہے کہ گزشتہ روز لندن میں افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے لندن میں صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں عام انتخابات انتہائی شفاف اور آزاد تھے، ووٹرزنے اپنی مرضی سے ووٹ دیے ، کسی کونہیں کہا گیا کہ کس کوووٹ دیناہےاورکس کو نہیں۔ فوج نے ممکن بنایا کہ ہرشخص اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دے،دھاندلی کےالزامات لگائے گئےلیکن کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ، تبدیلی کے سال سے متعلق ان کی ٹویٹ کو غلط معنوں میں لیا گیا۔


Wednesday 11 May 2016

کیسی ماں تھی ,عجیب استاد تھا.


جون 2015 کو اُستانی پردہ دار خاتون لکھتی ہیں میرا ایک شاگرد ہے اسے لکھنے کا بے حد شوق ہے اور اسکا دل چاہتا ہے وہ دنوں میں اچھا لکھاری بن جائے لیکن ابھی اسے بہت محنت کی ضرورت ہے اسے میں نے ایک ٹاپک پر تحریر لکھنے کے لئے کہا تھا جیسا اسے لکھنا آتا تھا اس نے لکھ دیا غلطیاں کافی تھیں میں نے اسے سدھارا اور ایک بہترین تحریر بنایا اور اسے آپ سب کی خدمت میں لے کر حاظر ہوں کہ آپ اس پر تبصرہ کریں ۔۔
یہ کہانی درحقیقت میری زندگی کا حصہ رہی۔ 'سال2007 ،، دسمبر کے مہینے میں سخت سردی تهی اور فجر کی نماز کی حاضری بهی ضروری تهی ۔۔ مدرسے کا دور تها میں اتنا بڑا تو نا ہوا تها لیکن غصے کا تیز تها اور ناسمجھ بهی تها .. اس دن ہوا یہ کہ میں فجر پڑھ کر سو گیا والدہ مجهے جگانا بهول گئیں اور کچھ دیر سے جگانے آئیں .. میں نے ان سے سخت لہجے میں بات کی اور جلداز جلد ادارے کے لئے نکلا... بچوں کو ہمیشہ لگتا ہے انکے استاد عام انسان نہیں بلکہ بہت ظالم اور جابر انسان ہیں۔۔ میں نے سہمتے ہوئے کلاس کا دروازہ کهولا کہ استاد محترم نے کلاس سے باہر رہنے کا حکم دیا انکا لہجہ اتنا رعب دار تها کہ میں ڈر گیا اور وہیں کهڑا رہا ۔۔ استاد محترم میرے پاس آئے اور دیر سے آنے کی وجہ پوچهی میں نے ایک ایک لفظ سچ کہہ ڈالا اوروہ بهی فخر سے ،، سر امی نے آج مجهے دیر سے جگایا اور میں انکو غصہ بهی ہوا میرے سر بہت سخت ہیں آپ مجهے ٹائم پر کیوں نہیں جگا سکیں ،، اتنا سننا تها کہ سر میرا منہ تکتے رہ گئے اور بولے جنید آپ گهر جاؤں یہاں آپ کچھ نہیں سیکھ سکتے آپ تو اپنی والدہ کا ادب کرنا نہیں جانتے کیا میں نے آپکو آج تک یہ پڑهایا؟ ،، گهر جاؤں اور اپنی امی سے معافی ما نگو جو ان کی بے ادبی کی ہے ۔۔ تم اپنی امی کا دل دکها کر آئے ہو تم کامیاب نہیں ہوسکتے اور تمهیں پڑهنے کی کیا ضرورت ہے جب تم نے بے ادب ہی رہنا ہے جاؤں گهر جاکر سو جاؤں ... سر کے یہ الفاظ مجهے شرمندہ کر گئے میں گهر گیا والدہ نے دروازہ کهولا وہ مجهے مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہی تهیں یہ دیکهنا تها کہ میں انکے قدموں سے لپٹ گیا اور رو رو کر صبح کی گستاخی کی معافی مانگی انہوں نے میرے ہاتهوں کو بوسہ دیا اور کہا مائیں اپنے بچوں کی غلطیاں اسی وقت معاف کردیتی ہیں میں تو خوش ہوں کہ میرے بیٹے کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا... یہی وہ وقت تها جب میں بہت خوش تها۔

Thursday 7 April 2016

را کے بعد افغان کارندہ ۔۔



را کے بعد افغان کی خفیہ ایجنسی کاایجنٹ بھی گرفتار ہوتا ہے پھر اسے نا معلوم مقام پر منتقل 
کیا جاتا ہے پھر اس کے بیان کو عملی شکل دی جاتی ہے اس کے بعد بیان کو دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے۔میڈیا کو بولنے کا موقع ملتا ہے۔ رات کو اینکرز ٹاک شوز کرتے ہیں چینلز ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اس کے رد عمل میں بیانات آنے لگتے ہیں۔ کیا یہ خفیہ ادارے اتنے کمزور ہوچکے ہیں؟ یہ کس بیڈ پرسوتے ہیں ان کے خواب کیا ہوتے ہیں، یہ سرچ آپریشن کہاں کرتے ہیں، جو بیرون ملک کی مکھی آکر یہاں پر مارنے لگتی ہے۔ کیا یہ ملک اتنا کمزور ہوچکا ہے جو بیرونی ہاتھوں کو توڑ نہیں سکی انہیں سبق نہیں دے سکی دنیا میں اول کہلانے والے ادارے سے پوچھتا ہو؟ یہ ایجنٹس کبھی رمضان شوگر ملوں سے برآمد ہوتے ہیں کبھی باڈر سے کبھی سمندری حدود سے آخر یہ کیا ہورہا ہے؟ کب تک ایسا ہوتا رہے گا میرے وطن عزیز میں؟
یہ بیرونی زہریلا جراثیم اس پاک سرزمین پر اپنے غلیظ قدم رکھ کر کیوں توڑنا چاہتے ہیں؟

Wednesday 6 April 2016

گلشن کے پھولوں کی فریاد

میں مرچکا ہوں،میری لاش پہلے ہسپتال لائی گئی،پھر سرد خانے میں رکھی گئ،میرا ابو مجھے تلاش کرتے کرتے مجھ تک پہنچ گیا،اس نے میری شناخت کی، وہ مجھے لے گیا ،میرا جنازہ ہوا،اور پھر مجھے مٹی میں دفن کردیا گیا،میں اب مٹی کا رزق بن رہا ہوں ،لیکن میری زندگی کے آخری تین سیکنڈ اب بھی زندہ ہیں کاش کوئی آئے میری قبر کھولے،میری ہدیاں ،پوچھتی ہے یہ چھوٹا سا معصوم سوال ہے "دنیا کے جس معاشرے میں بچوں کو بارود سے اڑادیا جائے"کیا اس معاشرے کو معاشرہ کہنا چاہیے؟ میں نے مرنا تھا میں مر گیا مجھے اپنی موت کا جواب نہیں چاہیے موت حق ہے،میں بس اس سوال کا جواب چاہتا ہوں"کیا یہ معاشرہ معاشرہ ہے؟میں اقتدار کے ہر فرد سے اپنا جُرُم پوچھتا ہوں کوئی بتائیں مجھے؟ کاش کے اس میں مریم نواز اور بلاول ہوتے تو میں آپ کے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھتا،انکل 
کیسا محسوس ہوتا ہے؟