Thursday 7 April 2016

را کے بعد افغان کارندہ ۔۔



را کے بعد افغان کی خفیہ ایجنسی کاایجنٹ بھی گرفتار ہوتا ہے پھر اسے نا معلوم مقام پر منتقل 
کیا جاتا ہے پھر اس کے بیان کو عملی شکل دی جاتی ہے اس کے بعد بیان کو دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے۔میڈیا کو بولنے کا موقع ملتا ہے۔ رات کو اینکرز ٹاک شوز کرتے ہیں چینلز ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اس کے رد عمل میں بیانات آنے لگتے ہیں۔ کیا یہ خفیہ ادارے اتنے کمزور ہوچکے ہیں؟ یہ کس بیڈ پرسوتے ہیں ان کے خواب کیا ہوتے ہیں، یہ سرچ آپریشن کہاں کرتے ہیں، جو بیرون ملک کی مکھی آکر یہاں پر مارنے لگتی ہے۔ کیا یہ ملک اتنا کمزور ہوچکا ہے جو بیرونی ہاتھوں کو توڑ نہیں سکی انہیں سبق نہیں دے سکی دنیا میں اول کہلانے والے ادارے سے پوچھتا ہو؟ یہ ایجنٹس کبھی رمضان شوگر ملوں سے برآمد ہوتے ہیں کبھی باڈر سے کبھی سمندری حدود سے آخر یہ کیا ہورہا ہے؟ کب تک ایسا ہوتا رہے گا میرے وطن عزیز میں؟
یہ بیرونی زہریلا جراثیم اس پاک سرزمین پر اپنے غلیظ قدم رکھ کر کیوں توڑنا چاہتے ہیں؟

Wednesday 6 April 2016

گلشن کے پھولوں کی فریاد

میں مرچکا ہوں،میری لاش پہلے ہسپتال لائی گئی،پھر سرد خانے میں رکھی گئ،میرا ابو مجھے تلاش کرتے کرتے مجھ تک پہنچ گیا،اس نے میری شناخت کی، وہ مجھے لے گیا ،میرا جنازہ ہوا،اور پھر مجھے مٹی میں دفن کردیا گیا،میں اب مٹی کا رزق بن رہا ہوں ،لیکن میری زندگی کے آخری تین سیکنڈ اب بھی زندہ ہیں کاش کوئی آئے میری قبر کھولے،میری ہدیاں ،پوچھتی ہے یہ چھوٹا سا معصوم سوال ہے "دنیا کے جس معاشرے میں بچوں کو بارود سے اڑادیا جائے"کیا اس معاشرے کو معاشرہ کہنا چاہیے؟ میں نے مرنا تھا میں مر گیا مجھے اپنی موت کا جواب نہیں چاہیے موت حق ہے،میں بس اس سوال کا جواب چاہتا ہوں"کیا یہ معاشرہ معاشرہ ہے؟میں اقتدار کے ہر فرد سے اپنا جُرُم پوچھتا ہوں کوئی بتائیں مجھے؟ کاش کے اس میں مریم نواز اور بلاول ہوتے تو میں آپ کے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھتا،انکل 
کیسا محسوس ہوتا ہے؟