Wednesday 6 April 2016

گلشن کے پھولوں کی فریاد

میں مرچکا ہوں،میری لاش پہلے ہسپتال لائی گئی،پھر سرد خانے میں رکھی گئ،میرا ابو مجھے تلاش کرتے کرتے مجھ تک پہنچ گیا،اس نے میری شناخت کی، وہ مجھے لے گیا ،میرا جنازہ ہوا،اور پھر مجھے مٹی میں دفن کردیا گیا،میں اب مٹی کا رزق بن رہا ہوں ،لیکن میری زندگی کے آخری تین سیکنڈ اب بھی زندہ ہیں کاش کوئی آئے میری قبر کھولے،میری ہدیاں ،پوچھتی ہے یہ چھوٹا سا معصوم سوال ہے "دنیا کے جس معاشرے میں بچوں کو بارود سے اڑادیا جائے"کیا اس معاشرے کو معاشرہ کہنا چاہیے؟ میں نے مرنا تھا میں مر گیا مجھے اپنی موت کا جواب نہیں چاہیے موت حق ہے،میں بس اس سوال کا جواب چاہتا ہوں"کیا یہ معاشرہ معاشرہ ہے؟میں اقتدار کے ہر فرد سے اپنا جُرُم پوچھتا ہوں کوئی بتائیں مجھے؟ کاش کے اس میں مریم نواز اور بلاول ہوتے تو میں آپ کے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھتا،انکل 
کیسا محسوس ہوتا ہے؟

No comments:

Post a Comment